غازی علم دین شہیدGhazi Alam Deen Shaheed

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

غازی علم دین شہیدGhazi Alam Deen Shaheed


تاریخ گواہ ہے جب جب کسی مردود نے پیامبر برحق حضرت محمد مصطفی صلى الله عليه وعلى آله وسلم کے خلاف زبان کھولی یا...قلم اٹھایا تو شمع رسالت کے پروانے اس لعین کو کیفرکردار پہنچانے کےلئے بے چین و بے قرار ہوگئے ۔ دنیا کے کسی گوشے میں ایسا گستاخانہ عمل ہوا تو پوری امت مسلمہ سراپا احتجاج اٹھ کھڑی ہوتی ہے ۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریز کی سرپرستی کے باعث متعصب ہندوﺅں نے متعدد بار ایسی جسارت کی مگر سرفروشان اسلام نے ہر مرتبہ ایسی حرکت کے مرتکب کو جہنم رسید کرنے میں دیر نہیں کی ۔ ایسے ہی جانبازوں اور سرفروشوں میں میرٹھ سے قاضی غازی عبدالرشید شہید ، صوبہ سندھ سے غازی عبدالقیوم شہید اور اولیائے حق کی سرزمین وداتاعلی ہجویری کی نگری سے غازی علم دین شہید ہماری تاریخ کے دمکتے ستارے ہیں جنہوں نے اپنی لہو کے نذرانے پیش کرکے چراغ رسالت کی ضوفشانی کا عظیم فریضہ ادا کیا یہ واقعہ لاہور اور پنجاب کی تاریخ وہ درخشاں باب ہے جس پرہم سب فخر سے سر بلند ہوئے تو ہی ہیں اس کے ساتھ ہی شمع رسالت پر کٹ مرنے کا درس عام ہوتا ہے ۔
غازی علم دین شہید 3 دسمبر 1908 کو لاہور کے ایک علاقے کوچہ چابک سوارں میں پیدا ہوئے. آپ کے والد کا نام طالع مند تھا جو کہ نجار یعنی لکڑی کے کاریگر تھے. غازی علم دین نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کے ایک مدرسے میں حاصل کی. تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے آبائی پیشہ کو اختیار کیا اور اس فن میں اپنے والد اور بڑے بھائی میاں محمد امین کی شاگردی اختیار کی.1928 میں آپ کوہاٹ منتفل ہوگئے اور بنوں بازار میں اپنا فرنیچر سازی کا کام شروع کیا.
1923ءمیں لاہور کے ایک ہندو پروفیسر چمو پتی نے ایک کتاب رقم کی جس میں حضوراکرم صلى الله عليه وعلى آله وسلم کی ذات بابرکات پر ناروا حملے کئے گئے ۔ اس کے چھپنے پر مسلمانان برصغیر میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ۔ ہر جانب بے چینی و اضطراب کی کیفیت طاری تھی ۔ ہندو مسلم فساد کا ماحول بنتا جا رہا تھا ۔ کتاب کے پبلشر راجپال پر فرقہ وار منافرت پھیلانے کے جرم میں مقدمہ چلا اور عدالت نے مجرم کو دو سال قید با مشقت اور ایک ہزار جرمانے کی سزا سنائی مگر پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر شادی لال ایک نہایت متعصب ہندو تھا اس نے راج پال کو بری کر دیا ۔اس فیصلے سے مسلمانان ہند میں بری طرح اشتعال و اصطراب نظرآنے لگا ۔ لہذا مسلمانوں کے ہر طبقہ فکر میں اس ملعون کو نابود کرنے کی کشمکش بڑھ گئی ۔ 17ستمبر 1927ءکو ایک جری جواں خدابخش نے راجپال پر حملہ کیا مگر وہ بال بال بچ گیا۔ 19اکتوبر ایک دوسرے جانباز عبدالعزیز نے راج پال کو واصل جہنم کرنے کی کوشش کی مگر ملعون پھر بچ نکلا ۔ بزرگ مسلم لیگی کارکن انجم ملک مرحوم بتایا کرتے تھے کہ اس دوران مسلم نوجوانوں کے دل و ذہن میں راجپال کا قتل عظیم ترین مشن سمجھا جا رہا تھا ایسی ہی کیفیات مسلم اشرافیہ قائدین اور علما میں برپا تھیں ۔ موچی دروازہ لاہور میں ایک احتجاجی جلسے سے بڑے بڑے مسلم زعما ءنے پرجوش خطاب کئے ۔ اس جلسہ میں امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری نے بھی ایک ایمان افروز اور عشق رسول سے لبریز خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایک ہفتہ کے اندر کوئی نوجوان میرے نانا کے اس ملعون گستاخ کو ہلاک نہ کرپایا تو حرمت رسول صلى الله عليه وعلى آله وسلم کی قسم یہ بوڑھا سید زادہ خود اپنے ہاتھوں سے مقدس فریضہ سرانجام دیگا ۔ اس جلسہ کے ہزاروں لوگوں میں سریا والا بازار لاہور کا ایک نوجوان علم دین بھی موجود تھا ۔شاہ جی کی اس پر اثر تقریر نے اس کے دل و دماغ میں بارود بھر دیا لہذا اس نے دل ہی دل میں ٹھا ن لی کہ اس گستاخ رسول کا کام تمام کرکے رہوں گا ۔اپنی منصوبہ بندی کے تحت راجپال کی پبلی کیشنزانارکلی پہنچ کر لعین کو سرعام جہنم رسید کرکے مسلمانان ہند میں سرفراز و سر بلند مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔ پورے ہندوستان میں راجپال کے قتل کا تہلکہ مچ گیا اور علم دین کی بہادری و سرفروشی کا ڈھنکا بج گیا ۔ باقی تمام نوجوان ہاتھ ملتے رہ گئے ۔ علامہ اقبال بھی نہ رہ سکے برجستہ ان کے منہ سے جملہ نکلا " اسیں گلاں کردے رہ گئے تے ترکھاناں دا منڈا بازی لے گیا " یعنی ہم باتوں سے آگے نہ بڑھ سکے اور ایک ترکھان لڑکا سرخرو ہوگیا ۔ غازی علم دین شہید گرفتار ہوئے۔ سیشن عدالت میں مقدمہ چلنے کے بعد سزائے موت کا حکم سنایا گیا جس کے خلاف عدالت عالیہ میں اپیل دائر کی۔ غازی علم دین کی وکالت کے لئے حضرت قائداعظم کو بمبئی سے لاہور بلوایا گیا کیونکہ ایک ہائی کورٹ کا وکیل دوسری ہائی کورٹ میں پیش نہیں ہوسکتا تھا لہذا قائداعظم کو اجازت دینے سے جسٹس سر براڈ وے نے انکار کر دیا مگر چیف جسٹس شادی لال نے خصوصی اجازت نامہ جاری کیا ۔ قائداعظم کو لاہور بلانے میں دوسرے قائدین کے علاوہ سب سے زیادہ کردار علامہ اقبال کا تھا ۔15جولائی 1929ءکو سماعت کے دوران قائداعظم نے اپنے مخصوص انداز میں دلائل کے انبار کھڑے کردیے جس سے مقدمہ بے جان نظر آنے لگا ۔ قائد کے مدلل اور پر مغز وکالت کا اگلے دن اخبارات نے تذکرہ کیا مگر ججز نے نچلی عدالت کا فیصلہ بحال رکھا جو ناقابل فہم اور متنازعہ عمل تھا ۔ 18اکتوبر کو رحم کی اپیل مسترد ہوئی تو غازی علم دین شہید نے لاہور میں تدفین کی وصیت کی ۔30اکتوبر 1929ءکو شہر لاہور کے عظیم فرزند اور شمع رسالت کے غازی سپاہی شہادت کے منصب عظمی پر فائز ہوکر ہمیشہ ہمیش کے لئے زندہ و جاوید ہوگیا ۔ شہید کو میانوالی جیل صبح سات بجے تختہ دار پر لٹکایا ۔8بجے شہسوار کو اتا را اور 9بجے بغیر نما ز جنازہ کے دفن کر دیا ۔
اسی شام یہ خبر پورے ہندوستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی ۔ پوری امت مسلمہ ہیجان کی کیفیت سے دو چار تھی کہ شہید کو اس کی وصیت کے مطابق لاہور لایا جائے ۔ ہرجانب جلسے جلوس تھے ۔ مشاہیر لاہور میاں عبدالعزیز کے مکان پر جمع ہوئے اور گورنر پنجاب سے وفد کی صور ت میں ملنے کا فیصلہ کیا ۔ اسی روز برکت علی محمڈن ہال علامہ اقبال کی زیر صدارت جلسہ کا پروگرام بنا ۔ یکم نومبر کو علامہ اقبال کے گھر جلسہ منعقد تھا ۔2نومبر کو پروفیشنل مسلم لیگ کی کونسل کے اجلاس میں علامہ اقبال کی تحریک پر یہ قرار داد منظور ہوئی کہ علم الدین شہید کی لاش نہ دے کر حکومت نے بڑی غلطی کی ۔ حکومت اب بھی اس غلطی کی اصلاح کرکے مسلمانوں کے غیض و غضب کو ٹھنڈا کر سکتی ہے ۔5نومبر کو مسلمانوں کا وفد علامہ اقبال ، سرمحمد شفیع اور ڈاکٹر خلیفہ شجاعت الدین پر مشتمل گورنر کو ملا ۔مسلمانوں کے جوش و بے چینی کو مد نظر رکھتے ہوئے شہید کی لاش لاہور لانے کا اہتمام کیا ۔
اس موقع پر مسلمانوں نے اپنے مطالبے میں جس کامل اتحاد کا ثبوت دیا وہ ہمیشہ یاد رہے گا ۔اس کا سہرا مولانا ظفرعلی خان جیسے متحرک رہبر اور کارکنان علم دین کمیٹی کے سر ہے ۔ تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر میں ہونے والے جنازہ میں عوام الناس کی اتنی بڑی تعداد میں شرکت بہت کم موقع پر نظر آئی، جتنی شہید کے جنازے میں تھی شہید کی نماز جنازہ قاری شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی.مولانا دیدار شاہ اور علامہ اقبال نے شہید کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارا.اس موقع پر علامہ نے فرمایا " یہ ترکھان کا لڑکا ہم سب پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا ".لوگوں نے عقیدت میں اتنے پھول نچھاور کئے کہ میت ان میں چھپ گئی.
14نومبر 1929کو غازی علم دین شہید کی وصیت کے مطابق انہیں میانی صاحب لاہور میں دفن کیا گیا۔
 
 
 




Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments