قاضی شریح کے تاریخی فیصلے

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

قاضی شریح کے تاریخی فیصلے

تاریخ اسلام انصاف کے تقاضوں کو اس باریک بینی سے پورے کرتے واقعات سے بھری ہے جو بظاہر آج ہمیں اس قدر پیچیدہ نہ محسوس ہوتے ہیں لیکن چونکہ وہ واقعات اپنے فیصلوں کے ساتھ تحریر ہیں لہٰذا اس بات کا فیصلہ کرنا کہ ان مسائل یا مقدمات کا فیصلہ اس وقت کے جج یا قاضی کے لیے کس قدر مشکل تھا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ بہت سے ایسے بھی مقدمات ہم ہر روز اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں، چینلز پر ان کی تکرار سنتے رہتے ہیں کہ جن کا فیصلہ یا اس کی کارروائی اور محرکات سے ساری دنیا واقف ہے، پر فیصلہ ہے کہ نہایت مشکل نظر آرہا ہے اس کی وجوہات کیا ہیں، یہ ایک طویل بحث ہے۔

قاضی شریح بن الحارث کندی کا تعلق یمن کے مشہور قبیلے کندہ سے تھا، جس میں بڑے بڑے علما و فضلا گزرے ہیں، قاضی شریح کی زندگی کا بڑا حصہ جاہلیت میں گزرا لیکن جب اسلام کی روشنی خطہ عرب پر پھیلی تو آپ بھی اس کے نور سے مستفید ہو گئے۔ آپ نے سچے دل سے رب العزت اور ان کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلیم کیا اور ایمان لائے۔ ایمان کی روشنی دل میں کچھ اس طرح اتری کہ جلد ہی آپ کے علم و فضل، اخلاق اور صفات حمیدہ سے لوگ واقف ہوتے گئے اور جب آپ مدینہ پہنچے تو لوگ تاسف کیا کرتے، کیونکہ آپ کی آمد سے کچھ عرصہ قبل ہی سرکار مدینہ ﷺ کا پردہ دنیا سے ہو چکا تھا اور آپ شرف صحابیت سے محروم رہ گئے۔ لیکن یہ آپ کی تقدیر میں ایسے ہی تحریر تھا۔ آپ پورے ساٹھ برس منصف قضاء پر فائز رہے اور حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے سے لے کر حضرت امیر معاویہؓ کے عہد خلافت تک یہ سلسلہ برقرار رہا اور اس وقت استعفیٰ دیا جب حجاج بن یوسف ثقفی عراق کا والی مقرر ہوا۔ آپ نے ایک سو سات سال کی عمر پائی اور اس عمر میں زیادہ تر حصہ اسلام کی خدمت میں گزارا۔

کسی نے قاضی شریح سے پوچھا کہ آپ نے یہ علم کیسے حاصل کیا؟ آپ نے فرمایا ’’اہل علم کے ساتھ تبادلہ خیالات کے ذریعے، اس میں، میں نے استفادہ بھی کیا اور افادہ بھی‘‘۔ آپ کے انتخاب کی کہانی بڑی عجیب سی ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ امیرالمومنین کے عہدے پر تھے۔ آپ نے ایک گھوڑا خریدا اس کی نقد قیمت ادا کی اور اس پر سوار ہو کر چل دیے، ابھی زیادہ دور نہیں گئے تھے کہ محسوس کیا کہ جانور میں ایسا نقص ہے کہ جس سے وہ چلنے سے معذور ہے، آپ واپس لوٹ کر آئے اور عربی سے کہ جس سے گھوڑا خریدا تھا کہا ’’لو پکڑو اپنا گھوڑا، یہ تو عیب دار ہے۔‘‘ عربی بولا۔ ’’امیر المومنین! میں یہ واپس نہیں لوں گا، میں نے تو آپ کے ہاتھ صحیح سالم فروخت کیا تھا۔‘‘ حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا ’’یہ معاملہ یوں تو طے نہ ہوگا، آؤ کسی کو حاکم مقرر کرلیتے ہیں وہ جو فیصلہ کرے گا تسلیم کر لیں گے۔‘‘ عربی نے کہا ’’پھر ہمارا فیصلہ شریح بن الحارث کندی کریں گے۔‘‘

حضرت عمرؓ نے فرمایا ’’مجھے منظور ہے۔‘‘
اس کے بعد یہ تنازع حضرت شریح کے پاس پہنچا، انھوں نے دونوں کی بات غور سے سنی پھر فرمایا ’’اے امیرالمومنین! جب آپ نے گھوڑا خرید لیا تھا اس وقت یہ صحیح حالت میں تھا؟‘‘
حضرت عمر فاروقؓ نے جواب دیا ’’ہاں!‘‘
حضرت شریح بولے ’’امیر المومنین! اگر یہ بات ہے تو یا تو آپ نے جو کچھ خرید لیا ہے اسے سنبھال کر رکھیں، ورنہ اسی حالت میں واپس لوٹائیں جس حالت میں لیا تھا۔‘‘ حضرت عمرؓ نے تعجب سے حضرت شریح کی جانب دیکھا اور فرمایا: ’’کیا آپ کے نزدیک یہی انصاف ہے؟‘‘
حضرت شریح بولے ’’بے شک، حکم قطعی اور انصاف پر مبنی ہے۔‘‘

یہ سن کر حضرت عمرؓ کچھ دیر خاموش کھڑے رہے پھر بولے ’’تم کوفہ جاؤ، میں تمہیں وہاں کا قاضی مقرر کرتا ہوں۔‘‘ حضرت شریح نے یہ عہدہ قبول کر لیا اور کوفہ تشریف لے گئے۔ آپ کے عجیب و غریب انصاف کے ترازو پر تلے فیصلے بہت مشہور ہیں، خدا نے آپ کو عقل و فہم اور دانش مندی سے نوازا تھا جسے آپ نے ایمان کی روشنی اور صداقت کے پیمانے پر بڑی مستعدی سے ادا کیا۔ ایک مرتبہ قاضی شریح کی عدالت میں آپ کے صاحبزادے نے کسی شخص کی ضمانت دی جسے آپ نے منظور کر لیا لیکن وہ شخص موقع پا کر عدالت سے فرار ہو گیا۔ قاضی شریح نے قانون کے مطابق اپنے بیٹے کو زندان کے حوالے کیا، آپ اس کے لیے خود جیل میں کھانا لے کر جاتے تھے۔

بہت سے مقدمات کچھ اس طرح سے ہوتے کہ جن کے گواہوں کی شہادتوں سے قاضی شریح کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہو جاتے تھے اور ان کے پاس ان شہادتوں کو رد کرنے کے لیے کوئی ٹھوس بنیاد نہ ہوتی۔ ایسی صورت میں جب گواہ عدالت میں شہادت دینے کے لیے آتے تو آپ عدالت کی مقرر کردہ شرائط بیان کرتے اور کہتے۔ ’’خدا تمہیں ہدایت دے، شہادت دینے سے پہلے میری بات غور سے سن لو! اس شخص کے بارے میں اصل فیصلہ کرنے والے تم ہو اور اس لیے میں تمہیں دوزخ کی آگ سے ڈراتا ہوں اور سچ یہ ہے کہ اس آگ سے ڈرنے کے زیادہ مستحق بھی تم ہی ہو، یقین کرو، اس وقت تمہیں پوری آزادی اور اختیار حاصل ہے کہ تم شہادت ترک کر دو، اور شہادت دیے بغیر چلے جاؤ۔‘‘

اس کے باوجود لوگ اپنی شہادت دینے پر مصر ہوتے تو آپ اس شخص سے جس کے حق میں گواہی دینے آئے ہوتے، یوں مخاطب ہوتے۔ ’’بھلے آدمی! اچھی طرح جان لو کہ میں تمہارے مقدمے کا فیصلہ ان لوگوں کی شہادت کی بنیاد پر کر رہا ہوں، مجھے یقین ہے کہ تم ظالم ہو۔ زیادتی کے مرتکب تم ہی ہوئے ہو لیکن میں محض قیاس و گمان کی بنیاد پر فیصلہ صادر نہیں کر سکتا، میں تو جو فیصلہ بھی کروں گا وہ ان گواہوں کی شہادت کی بنیاد پر ہی کروں گا۔ یاد رکھو! میرا فیصلہ تمہارے لیے وہ چیز ہرگز حلال نہیں کرے گا جسے اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کیا ہے۔‘‘ آج مقدمات کے نام جو بھی ہوں، شہادتیں کتنی ہی کمزور یا پائیدار کیوں نہ ہوں، ان کے فیصلے سے عام لوگ تو واقف ہوتے ہی ہیں لیکن دراصل فیصلہ کیا تحریر ہوکر سامنے آتا ہے ۔ وہ خاصا مختلف ہوتا ہے شاید ہمارے دل کھوکھلے ہوچکے ہیں یا ہمیں آخرت کے اس بڑے فیصلے کا انتظار ہی نہیں کہ سب کچھ یہ دنیا ہی ہے۔

شہلا اعجاز
 

Post a Comment

0 Comments