رمضان المبارک میں عبادات کے لیے وقت کیسے نکالیں؟

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

رمضان المبارک میں عبادات کے لیے وقت کیسے نکالیں؟

ماہِ رمضان کی آمد کے ساتھ ساتھ رمضان سے جُڑی تمام تر خوشیاں، مصروفیات اور خواہشیں سب کی زبان پر ہیں۔ خواتین کا رمضان سحری و افطار کی فکر سے شروع ہو کر شاپنگ اور عید کی خریداری پر ختم ہو جاتا ہے۔ مرد حضرات کا رمضان شروع کے پہلے ہفتے میں نماز و تراویح کی پابندی کے بھرپور میراتھن کے بعد آخری تین دنوں میں توبہ و استغفار کے ساتھ اِس حسرت پر اختتام پزیر ہوتا ہے کہ یہ رمضان بھی جلد گزر گیا اور اِس میں بھی وہ کوئی خاص عبادت نہیں کر سکے۔

بوڑھوں کا رمضان بہو، بیٹیوں اور اولادوں کو ڈانٹتے گزر جاتا ہے کہ کوئی اللہ کا نام لے اور قرآن شریف کھولے، تو بچوں کا رمضان اِس دھما چوکڑی میں تماشائی بنے نت نئے کھانوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ الغرض رمضان کی روح و احساس جس کی ضرورت ہے وہ باقی نہیں رہتی اور باقی سارے کام ہو جاتے ہیں۔ رمضان کی آمد سے پہلے ہی فیس بک اور واٹس اپ پر میسجز کا طوفان آ جاتا ہے۔ کوئی نئی دعائیں بتا رہا ہے تو کوئی ٹائم مینجمنٹ کی تراکیب سکھا رہا ہے۔ کوئی آپ کے سونے اُٹھنے کے اوقات مقرر کر رہا ہے تو کوئی وظیفوں اور تسبیجوں کی تعداد۔ مگر جب حقیقت میں اِن مشوروں کا اِطلاق آپ اپنی روٹین کی روز مرہ زندگی میں کرتے ہیں تو نتیجہ ندارد۔ آپ کی عادات و اطوار اور لائف روٹین سالوں میں بنی ہیں، وہ ایک واٹس اپ میسج سے بھلا کیسے تبدیل ہو سکتی ہیں؟

اِس مضمون میں ہماری یہ کوشش ہے کہ آپ اپنی مصروف ترین زندگی میں ایسا کیا کریں کہ آپ کی روز مرہ زندگی پر بھی کوئی خاطرخواہ اثر نہ پڑے اور آپ تراویح و وظائف کے ساتھ ساتھ اِس ماہ مبارک میں کم از کم دو بار قرآن مجید بھی پڑھ لیں۔ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا نجات کا ہے۔ لیکن ہم نے پہلا عشرہ کھانے پینے کا، دوسرا دعوتوں اور چمپینز ٹرافی کا اور تیسرا شاپنگ کے لئے رکھ چھوڑا ہے۔ یہ نظریہ ہی غلط ہے کہ آپ ٹائم کو مینیج کرتے ہیں۔ یہ تو وقت ہے جو آپ کو خرچ کئے جا رہا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم وقت نکالیں کہاں سے جو اللہ کی یاد میں لگ سکے؟ ہم ایسے نیک بندوں کی بات نہیں کر رہے جن کا رمضان مسجدالحرام میں گزرتا ہے یا وہ اعتکاف اور قیام الیل کے پابند ہیں۔ ہم تو بات ایک عام سے دنیا دار بندے کی کرتے ہیں۔ رمضان میں کم و بیش 30 دن ہوتے ہیں۔ یہ بنے 720 گھنٹے، 43,200 منٹ اور 2,592,000 (قریباً 25 لاکھ) سیکنڈز۔

ہر دن میں 24 گھنٹے ہوتے ہیں آپ 8 گھنٹے سونے اور طبعی ضروریات کے لئے رکھ لیں۔ مزید 8 گھنٹے آفس ورک یا پڑھائی کے لئے (اگر آپ کالج، یونیورسٹی میں جاتے ہیں)۔ باقی بچے 8 گھنٹے۔ اِس میں سے بھی آپ 4 گھنٹے سحری، افطاری، 5 وقت کی نماز اور گھر والوں کے لئے نکال لیں۔

آپ کو صرف کم از کم 4 گھنٹے روزانہ کی بنیاد پر اللہ سائیں کے لئے نکالنے ہیں۔ 4 گھنٹے روز، مہینے کے 120 گھنٹے، 7,200 منٹ اور 4,32,000 سیکنڈز ہوتے ہیں۔ آپ ڈیڑھ گھنٹہ عشاء و تراویح اور آدھا گھنٹہ تسبیح کے لئے مختص کر لیں (یہ آدھا گھنٹہ آپ تراویح کے لئے مسجد آتے جاتے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ذکر کرتے رہیں)۔

ایک عام آدمی باآسانی 30 منٹ میں ایک پارہ پڑھ سکتا ہے۔ اگر آپ ایک گھنٹہ روز قرآن کو دے دیں تو باآسانی رمضان میں 2 قرآن شریف مکمل ہوسکتے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگوں کی رفتار زیادہ ہے اور وہ 15 منٹ میں سپارہ پڑھ لیتے ہیں، تو ایسے افراد رمضان المبارک میں 4 قرآن پاک باآسانی مکمل کر سکتے ہیں۔ باقی بچا ایک گھنٹہ اِس میں آپ تسبیح پڑھ لیں۔ قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر پڑھ لیں۔ عقائد کی کوئی کتاب یا کوئی اور اسلامی لٹریچر پڑھ لیں۔ صرف 4 گھنٹے روز کی اِس مشق سے آپ 2 سے 4 قرآن شریف مکمل کرسکتے ہیں۔ قریباً 5 لاکھ کے قریب تسبیح کے دانے پڑھ سکتے ہیں اور قرآن پاک کا ترجمہ ختم کر سکتے ہیں، جبکہ آپ کی روز مرہ زندگی میں بھی کوئی فرق نہیں آئے گا۔

آپ افطار سے پہلے، عصر کے بعد ایک سپارہ پڑھ لیں اور ایک فجر سے پہلے یا بعد میں۔ تراویح کے بعد سونے سے پہلے ترجمہ و تفسیر پڑھ لیں اور چلتے پھرتے زکر کرتے رہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ چار گھنٹے کس طرح نکالے جائیں؟ تو اِس کا بھی حل ہمارے پاس موجود ہے۔ اگر آپ صرف مندرجہ ذیل کاموں سے احتیاط برتیں تو یہ 4 گھنٹے باآسانی آپ کو دستیاب ہو سکتے ہیں۔

فیس بک کا استعمال نہ کریں۔ کم از کم 4 گھنٹوں کے لئے تو مکمل طور پر ترک کر دیں۔ آپ اپنی سہولت کے مطابق 4 گھنٹے خود ہی متیعن کر لیں۔ مثلًا تہجد سے فجر تک، عصر سے مغرب تک اور عشاء و تراویح سے سونے تک۔

واٹس اپ کا استعمال ترک یا کم کر دیں۔

T.V نہ دیکھیں۔ یقین جانیے اگر آپ T.V نہیں دیکھے گیں تو دنیا پھر بھی چلتی رہے گی۔

وقت پر سوجائیں تاکہ صبح تازہ دم ہوکر تہجد پر اُٹھ سکیں۔

مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ سفر پر جاتے تو ریل میں کھڑکیوں کے پردے گرا دیتے۔ کہتے کہ آدمی راستوں میں محو ہوجائے تو منزل پر پہنچ کر آنکھیں تھک جاتی ہیں۔ اپنے نفس کی قربانی، غریبوں کا احساس اور اللہ کی رضا رمضان کی منزلیں ہیں۔ خدارا ٹی وی شوز اور سوشل میڈیا پر اپنی آنکھوں کو نہ تھکائیں۔

اگر اللہ توفیق دے تو اعتکاف کا اہتمام ضرور کریں۔ دس دنوں کے لئے اپنے آپ کو دنیا سے نکالیں گے تو یہ بھی آپ کے دل سے نکل جائے گی۔

ذیشان الحسن عثمانی


 

Post a Comment

0 Comments