زبان کی حفاظت کیجیے : زبان کو آٹھ باتوں سے بچائیں

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

زبان کی حفاظت کیجیے : زبان کو آٹھ باتوں سے بچائیں

امام غزالیؒ جو دانش و حکمت کے بھی امام ہیں اور صفا و معرفت کے بھی شناور ہیں کس خلوص اور دل سوزی سے ارشاد فرماتے ہیں کہ اپنی زبانوں کو درج ذیل آٹھ باتوں سے محفوظ رکھو گے تو ہزاروں آفتوں سے محفوظ رہو گے۔ 

(1) جھوٹ

 اپنی زبان کو گفتگو کے دوران جھوٹ سے بچائو اگر بیہودہ گوئی اور جھوٹ کی عادت ڈال لو گے تو پھر کوشش کے باوجود جھوٹ سے نہ بچ پائو گے۔ جھوٹ کبیرہ گناہوں کی ماں ہے، جب لوگوں کو معلوم ہو جائے گا کہ تم جھوٹ کے عادی ہو تو تمہارا رعب جاتا رہے گا۔ تمہاری بات کا کوئی اعتبار نہیں کرے گا۔ لوگ تمہیں حقارت کی نظروں سے دیکھنے لگیں گے۔ اگر تم جھوٹ کے نقصانات جاننا چاہتے ہو تو دوسروں کے جھوٹ سے اپنی نفرت کا اندازہ لگائو جس طرح تم جھوٹے کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو اگر تم خود جھوٹ بولو گے تو لوگ تمہیں بھی اسی حقارت سے دیکھیں گے۔ اسی طرح تمام عیبوں سے نفرت کا اندازہ دوسروں کے عیب دیکھ کر ہو سکتا ہے کیونکہ اپنے آپ میں اگر عیب ہو تو اس میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی اس لئے جو بات تمہیں دوسروں میں پسند نہیں خود کو بھی اس میں مبتلا نہ کرو۔ 


(2) وعدہ خلافی

 وعدہ خلافی سے بچو۔ جب کسی سے وعدہ کرو تو ضرور اسے پورا کرو بلکہ لوگوں پر احسان کرنے کی کوشش کرو۔ اگر کسی ضرورت کی وجہ سے وعدہ خلافی کرو تو یہ نفاق اور بد خلقی کی علامت ہے۔ حضور(ﷺ) کا فرمان ہے۔ کوئی شخص (خواہ نماز پڑھے یا روزہ رکھے) اگر اس میں تین خصلتیں ہیں تو منافق ہے۔ اول: بات کرے تو جھوٹ بولے۔ دوم: جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے۔ سوم: امانت میں خیانت کرے۔ 

(3) خود نمائی

 گفتگو میں خود نمائی، جھگڑے اور دشمنی سے زبان کو بچائو۔ کیونکہ ایسا کرنا مخاطب کی ایذا رسانی اور اپنے علم اور ذہانت کی تعریف کرنا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ شیطان تمہیں یہ کہہ کر دھوکہ دے کہ سچ بات ظاہر کرنے میں سستی کیسی؟ یاد رکھو شیطان ہمیشہ احمقوں کو نیکی کا دھوکا دے کر برائی کی طرف لے جاتا ہے۔ تم ایسا کر کے شیطان کے ہاتھوں بیوقوف نہ بنو۔ اظہار حق اچھی بات ہے بشرطیکہ مخاطب کو خفیہ طور پر سمجھائو نہ کہ خود نمائی کے طور پر۔ نصیحت کے ڈھنگ اور ہی ہوا کرتے ہیں۔ اس میں سراسر نرمی برتی جاتی ہے۔ سختی سے نصیحت کرنا مخاطب کی رسوائی کرنا ہے۔ ایسی نصیحت کا بجائے فائدہ کے نقصان ہوتا ہے۔ جو شخص برے لوگوں کی صحبت میں رہ کر جھگڑالو اور خودنما ہو گیا ہو اور خاموش رہنا اس کے بس میں نہ ہو اور اسے برے علماء سے ملاقات کا موقع پیش آئے اور بحث و مباحثہ کر کے ان کے عیوب کے ظہور کی بجائے تعریفوں کے پل باندھنے لگے تو ایسے شخص سے اس طرح بھاگو جیسے شیر سے ڈر کر بھاگا کرتے ہو۔ یاد رکھو خودنمائی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اور خلقت دونوں ناراض ہوتے ہیں۔

(4) غیبت
غیبت سے بچو ۔ غیبت کے یہ معنی ہیں کہ انسان کی پیٹھ پیچھے اس کا ایسے ذکر کیا جائے کہ اگر وہ سن لے تو اسے ناگوار گزرے ۔ اگر تم ظالم کی غیبت اپنے آپ کو سچا سمجھتے ہوئے کرو گے تو بھی غیبت ہو گی ۔ خود پسند اور ریا کار اشخاص کی غیبت سے بھی بچو ۔ کیونکہ ان معاملا ت میں کم از کم تم یہ کہو گے کہ اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح کرے ، ان کے عمل کی وجہ سے مجھے تکلیف پہنچی اور اللہ تعالیٰ ان کی اور میری اصلاح کر ے تو ایسا کہنے میں دو بری باتیں ہیں۔ ایک غیبت اور دوسرے گناہ سے باز آنے اور اصلاح کی دعا کرنے سے اپنی 
تعریف بیان کرنا۔ اگر’’ اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح کرے ‘‘سے تمہاری مراد دعا ہے تو یہ دعا تمہیں پوشیدہ انداز میں کرنی چاہیے اور اگر حقیقتاً تمہیں ان کے اعمال سے تکلیف پہنچی ہے تو اسکی علامت یہ ہونی چاہیے تھی کہ تم اس کی رسوائی اور غیبت کا ارادہ نہ رکھتے ۔ لیکن تم نے اس کے جس عیب کی وجہ سے غم اور تکلیف کا اظہار کیا ہے، یہ بھی اظہار غیبت ہے اور اس غیبت سے اللہ تعالیٰ کا یہ قول روکتا ہے۔ ’’تم آپس میں ایک دوسر ے کی غیبت نہ کرو۔ کیا تم میں سے 
کوئی اپنے مردہ بھائی کے گوشت کو کھانا پسند کرتا ہے۔‘‘ اگر تمہیں اپنے مردہ بھائی کے گوشت کھانے کو کہا جائے تو تمہیں ناگوار گزرے گا اور تم اپنی کراہیت کا اظہا ر کرو گے۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت کرنے والوں کو مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے اور تمہیں مسلمانوں کی غیبت سے منع کیا اس لئے تم پر لازم ہے کہ اس سے بچو۔ اور اس سے با آسانی اس طرح بچ سکتے ہو کہ اپنی ذات میں غور و فکر کرو کہ آیا تم میں کوئی ظاہری یا باطنی عیب تو نہیں یا کسی عیب کا شائبہ تو نہیں اگر ہے تو یہ دیکھو کہ جس طرح تم اپنے عیبو ں سے نہیں بچ سکتے اسی طرح دوسرے بھی نہیں بچ سکتے اور جس طرح تم اپنے عیب کے ظہور کو برا جانتے ہو اسی طرح وہ بھی اسے برا سمجھتے ہیں اور اگر تم اس کے عیبوں کو چھپائو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے عیبوں کو چھپا ئے گا ۔ اور اگر تم کسی کی غیبت کرو گے تو اللہ تعالیٰ دنیا میں تمہیں لوگوں کے ذریعے اور آخرت میں ان کے سامنے بے عزت کرے گا۔ اور اگر تم اپنے اند ر کوئی ظاہری یا باطنی عیب نہیں دیکھتے تو یاد رکھو کہ نفس کے عیوب سے جاہل ہونا ہی سب سے بڑا عیب ہے اور اس سے بڑھ کر حماقت کوئی نہیں ۔ اگر اللہ تعالیٰ تمہارے حق میں بہتری کرنا چاہتا تو تمہیں اپنے عیوب سے آگاہی کی طاقت بخشتا اور تم اپنے نفس کو عیو ب سے بھرا پا تے ۔ اور اگر تم میں واقعی کوئی عیب نہیں تو اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لائو ۔ اور اس پاکیز ہ نفس کو لوگوں کی غیبت کرنے اور ان کی عزتوں کو اچھالنے سے آلو دہ نہ کرو کیونکہ یہ عمل بذات خود بہت بڑا عیب ہے۔

(5) تکبر
اپنی بڑائی نہ بیان کرو۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ ’’تم اپنی بڑائی نہ بیان کرو کیونکہ اسے زیادہ علم ہے کہ کون زیادہ متقی ہے‘‘۔ کسی دانا سے پوچھا گیا کہ صدقِ قبیح کیا ہے؟ اس نے کہا: اپنی تعریف خود کرنا صدقِ قبیح ہے۔ خبر دار! ایسا نہ کرنا، یاد رکھو اگر تم اپنی تعریف خود کرو گے تو لوگوں کے سامنے اپنی قدر گھٹائو گے اور اللہ تعالیٰ بھی ناراض ہو گا۔ اگر تم شہرت کے خواہاں ہو تو اپنے منہ میاں مٹھو بن کر ایسا نہیں کر سکتے۔ غور کرو کہ جب کوئی غیر تمہارے پاس آ کر اپنی تعریف کرتا ہے اور تم اسے اچھا نہیں سمجھتے تو اگر تم اپنی تعریف خود کرو گے تو لوگ بھی تمہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھیں گے پہلے تو دل میں تمہیں برا خیال کریں گے، بعد ازاں زبان سے بھی کہنے لگیں گے۔ 

(6) لعن طعن
 لعن طعن سے زبان کو بچائو۔ خبردار! حیوان، انسان اور طعام وغیرہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ اشیاء ہیں، ان پر لعنت نہ بھیجو اور نہ ہی ان پر نکتہ چینی کرو۔ اپنے خاندان میں کسی سے اپنی طرف سے عائد کردہ الزامات کی وجہ سے قطع تعلقی نہ کرو کیونکہ بھیدوں کا اصل واقف اللہ تعالیٰ ہے۔ اس لئے اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان دخل درمعقولات نہ دو۔ یاد رکھو قیامت کے دن تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ فلاں پر تم نے لعنت کیوں نہ کی اورفلاں کے بارے خاموش کیوں رہے۔ حضورﷺ خراب ترین کھانے کو بھی برا نہ کہتے ، جی ہوتا تو کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے۔ زبان مبارک سے اس کی بابت کچھ نہ فرماتے ۔ 

(7) بددعا
 لوگوں کو بددعا دینے سے زبان کو روکو! اگر کوئی تم پر ظلم کر ے تو اس معاملہ کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردو۔ حجاج کے حق میں کسی نے زبان درازی کی تو ایک بزرگ نے اسے کہا : کہ جن لوگوں نے حجاج کے حق میں زبان درازی کی ہے، ان سے اللہ تعالیٰ ویسا ہی بدلہ لے گا جیسا حجاج سے اس کے ظلم کا ۔ (معاشرے کو اجتماعی طور پر ایک طریقہ انصاف تشکیل دینا چاہیے تاکہ مظلوم کی حقیقی داد رسی ہو، وہ صرف بددعائیں دے کر یا اپنی زبانوں کو گالی گلوچ سے آلودہ کر کے اپنے آپ کو تسکین دینے کی مصنوعی کوشش نہ کرتے رہیں، اسلام نے ظالم کو مظلوم کی آہ سے خبردار کیا ،عام افراد کو تربیت دی ہے کہ وہ بددعا دینے سے بچیں اور معاشرے اور حکومت کو نظر آنے والا انصاف رائج کر نے کی تلقین کی ہے۔ اس طرح ایک ایسا ماحول تشکیل دیا ہے ،جو فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق ہے) ۔ 

(8) بیہودگی
 متانت سے رہو ۔ بیہودگی ، ہنسی مذاق اور مسخرے پن سے بچو ۔ کیونکہ اس طرح سبکی ہوتی ہے، رعب و دبدبہ جاتا رہتا ہے دل دکھتے ہیں اور وحشت سوار ہوتی ہے۔ ہنسی مذاق سے لڑائی جھگڑے ، غصے اور قطع تعلقی کا آغاز ہوتا ہے اوردلوں میں کینہ جگہ پاتا ہے کسی سے طنزو تمسخر نہ کر و اگر کوئی تم سے ایسا کرے تو اس کی حوصلہ افزائی نہ کر و بلکہ روگردانی کرلو جب تک کہ وہ کسی اور بات میں غور نہ کرے ۔ اگرلغوبات سنو، تو بھی متانت اور سنجیدگی سے کام لو ۔ یہ تمام باتیں زبان کی آفات کا مجموعہ ہیں۔


Post a Comment

1 Comments