سرچشمۂ محبت رحمۃ للعالمینؐ

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

سرچشمۂ محبت رحمۃ للعالمینؐ

رسولِ رحمتؐ کی زندگی میں بڑے مشکل مرحلے آئے۔ ان میں سے جنگ موتہ بہت اہم واقعہ ہے۔ اس جنگ میں صحابہ کرامؓ تین ہزار کی تعداد میں تھے جبکہ دشمن ایک لاکھ سے زائد تھے۔ یہ جنگ شام میں موتہ کے مقام پر ہوئی ۔ اس میں تینوں کمانڈر حضرت زید بن حارثہؓ، حضرت جعفر بن ابی طالب اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ یکے بعد دیگرے شہید ہو گئے۔ پھر کمان حضرت خالد بن ولیدؓ نے سنبھالی اور دشمن کو پسپا کر دیا۔ نبی پاکؐ کو جنگ کے حالات جبریل نے بتائے جنھیں آپ نے صحابہؓ کے سامنے بیان فرمایا آپؐ کافی غم زدہ تھے، منبر پر کھڑے آپؐ نے لوگوں کو یہ اندوہ ناک خبر سنائی،مگر انھیں حوصلہ بھی دیا۔ آپؐ کے چہرے سے صحابہ کرامؓ محسوس کر رہے تھے کہ آپؐ کے دل پر کیا گزر رہی ہے۔ تینوں سپہ سالار، جماعتِ صحابہ میں بہت ممتاز اور نمایاں تھے۔ تینوں کی بڑی خدمات ہیں اور تینوں سے آنحضورؐ کی محبت اور تعلق بہت گہرا تھا۔ مختلف مواقع پر آنحضورؐ نے تینوں صحابہ کے مناقب و فضائل بھی بیان کیے ہیں۔
حضرت جعفرؓ کی شہادت کے وقت ان کے بچے بالکل چھوٹے چھوٹے تھے۔ آنحضورؐ مسجد میں خطاب کے بعد تیزی سے حضرت جعفرؓ کے گھر کی طرف چل دیے۔ حضرت جعفرؓ کی اہلیہ حضرت اسماء بنت عمیسؓ بھی بڑی بلندپایہ صحابیہ تھیں۔ وہ بیان فرماتی ہیں کہ میں اپنے گھر میں کام کاج میں مصروف تھی۔ میں نے بچوں کو نہلا دھلا کر ان کے سروں میں تیل لگایا اور انھیں کپڑے پہنائے ۔ میں سالن تیار کر چکی تھی اور اب آٹا گوندھنے لگی تھی۔ اس اثنا میں نبی اکرمؐ ہمارے گھر تشریف لائے۔ میرے پاس آکر مجھ سے پوچھا: ’’اے اسماء جعفر کے بیٹے کہاں ہیں؟‘‘ میں انھیں آپؐ کے پاس لائی تو آپؐ نے ان کو اپنے ساتھ چمٹا لیا اور پیار کیا۔ اس دوران میں نے دیکھا کہ آنحضورؐ رو رہے ہیں اور آپؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہیں۔ مجھے بہت فکر مندی ہوئی اور میں نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول! کیا اہلِ موتہ کی طرف سے کوئی تکلیف دہ خبر پہنچی ہے؟‘‘

آپؐ نے فرمایا : ’’ہاں‘‘۔ پھر آپؐ نے شہدا کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جعفر شہید ہو گیا ہے۔ یہ خبر سنتے ہی حضرت اسماءؓ کے اپنے قول کے مطابق ان کی چیخ نکل گئی۔ حضرت اسماءؓ کے چیخنے چلانے سے صحابیات ان کے گھر جمع ہو گئیں۔ اس وقت آپؐ نے فرمایا: ’’اے اسماء! صبر سے کام لینا ، اپنی زبان سے کوئی ایسی بات نہ کہنا جو اللہ کو ناپسند ہو اور سینہ کوبی اور گریبان پھاڑنے سے اجتناب کرنا۔‘‘ اس دوران چونکہ پورے مدینے میں شہدا کی خبر پہنچ چکی تھی، اس لئے ہر گھر اور مجلس میں غم کی چادر تن گئی تھی۔ ہر زبان سے شہدا کا تذکرہ اور ان کی خوبیاں بیان کی جا رہی تھیں۔ حضرت اسماءؓ کو نصیحت کرنے کے بعد آپؐ گھر سے باہر نکل آئے۔ وہاں سے آپؐ تیز قدموں کے ساتھ اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت فاطمہؓ حضرت جعفرؓ کی شہادت پر غم زدہ تھیں۔ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور زبان سے مسلسل یہی کہے جا رہی تھیں ہائے میرے محبوب چچا۔ آپؐ نے فرمایا کہ جعفر جیسے بلند پایہ آدمی پر رونے والیوں کو رونا چاہیے مگر اے فاطمہ صبر افضل ہے۔ پھر آپؐ نے اپنی بیٹی کو تلقین کی کہ آل جعفر پر آج بہت مشکل وقت ہے ، انھیں آج اپنے آپ کا بھی ہوش نہیں۔ ان کے لئے کھانا تیار کرو اور ہر طرح سے ان کی دلجوئی و خبر گیری کرو۔

نبی اکرمؐ تمام شہدا کے گھروں میں تشریف لے گئے اور سب کو تسلی دی۔ تین دنوں کے بعد آنحضورؐ نے تمام لوگوں کو تلقین فرمائی کہ شہدا پر کوئی مت روئے۔ آپؐ نے حضرت اسماء بنت عمیسؓ کو بھی کہا کہ آج کے بعد میرے بھائی پر مت رونا۔ آپؐ نے فرمایا کہ جعفرؓ کے کٹے ہوئے بازوں کے بدلے میں اللہ نے انھیں پَر عطا فرمائے ہیں جن سے وہ جنت میں جہاں چاہیں پرواز کر کے چلے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے حضرت جعفرؓ تاریخ میں طیّار کہلائے۔ آپؐ نے تین دنوں تک حضرت جعفرؓ کے بچوں کو اپنے گھر میں رکھا۔ آپؐ ان سے ان تین دنوں میں بہت قریب رہے۔ انھیں خود کھانا کھلاتے ، ان کی دلجوئی کرتے اور پیار و محبت سے ان کے زخمی دلوں پر مرہم رکھتے ۔ حضرت جعفرؓ کے ساتھ بھی آپؐ کو بڑی محبت تھی اور ان کے بچوں سے بھی آپؐ نے ہمیشہ گہری محبت کا اظہار کیا۔

حضرت جعفرؓ کی شہادت کا واقعہ ان کے بیٹے حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ کی زبانی تاریخ میں بیان ہوا ہے۔ وہ اس وقت بالکل نوعمر تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب آنحضورؐ ہمارے والد کی شہادت کی خبر دینے ہمارے گھر تشریف لائے اور میری والدہ کو واقعہ بتایا تو وہ رونے لگیں۔ میں بھی آپؐ کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپؐ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور آپؐ کی ڈاڑھی مبارک تر ہو رہی تھی۔ اس موقع پر آپؐ نے ہمارے لئے دعا کی اور فرمایا کہ اے اللہ تو جعفرؓ کے درجات بلند فرما اور اس کے پسماندگان کا اس سے بہتر قائم مقام بن جا۔ نبی اکرمؐ نے میرے والد کی شہادت کے بعد انھیں جنت میں پر عطا کیے جانے کی خبر دی تو والدہ نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں، آپؐ لوگوں کو بھی یہ خوش خبری سنا دیجیے۔‘‘ اس موقع پر آنحضورؐ اٹھے، میرا ہاتھ پکڑا ، میری پیشانی چومی اور میرے سر پر دستِ شفقت پھیرنے لگے۔ یوں میری انگلی پکڑے ہوئے مسجد تشریف لائے اور آپؐ منبر پر چڑھے۔ لوگ مسجد میں جمع ہو گئے۔ آپؐ نے مجھے منبر پر اپنے آگے نچلی سیڑھی پر بٹھایا ۔ آپؐ کی آواز میں نقاہت اور چہرے پر غم نمایاں تھا۔ فرمایا: ’’اے لوگو جعفر شہید ہو چکا ہے۔ میدانِ کا رزار میں اس کے بازو کٹ گئے تھے، ان کے بدلے میں اللہ نے اسے دو ایسے بازو عطا فرمائے ہیں جن سے وہ پرندوں کی مانند پرواز کرتا ہے۔‘‘

جب آپؐ منبر سے اترے تو آپؐ مجھے اور میرے بھائی کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے گئے۔ آپؐ نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ بچوں کے لئے کھانا لاؤ۔ پھر آپؐ نے ہمیں اپنے ساتھ کھانا کھلایا۔ وہ کھانا جو کے آٹے سے تیار کیا گیا تھا، اسے تیل میں بھون کر سیاہ مرچ اور نمک ڈالا گیا تھا۔ ہم تین دن تک آپؐ کے گھر میں رہے۔ ہر کھانے کے وقت آپؐ ہمیں اپنے ساتھ بٹھاتے اور بڑے پیار سے کھانا کھلاتے۔ خدا کی قسم آپؐ کے گھر کا کھانا بہت پاکیزہ، بابرکت اور انتہائی لذیذ تھا۔ ان تین دنوں میں آپؐ جب بھی کسی زوجہ مطہرہ کے ہاں تشریف لے جاتے تو ہمیں بھی ساتھ لے جاتے۔ تین دنوں کے بعد آپؐ ہمیں لے کر ہمارے گھر آئے اور ہماری والدہ کو نصیحت فرمائی اور ہمیں دعائیں دیں۔

اس عرصے میں آنحضورؐ نے حضرت جعفرؓ کے بیٹوں کی دلجوئی کے لئے کئی بار مختلف انداز میں حضرت جعفرؓ کی فضیلت بیان فرمائی۔ ایک دن آپؐ نے حضرت عبداللہ بن جعفرؓ کو اپنے ساتھ چمٹاتے ہوئے فرمایا کہ جعفرؓ شکل و صورت اور طبیعت و اخلاق کے لحاظ سے مجھ سے مشابہ تھا اور عبداللہ بھی مجھ سے مشابہ ہے۔ چھوٹے بیٹے محمد بن جعفرؓ کو اپنے سینے سے لگاتے ہوئے فرمایا کہ محمد بہت پیارا بچہ ہے، اس کی شکل میرے چچا ابو طالب سے ملتی ہے۔ آپؐ نے حضرت جعفرؓ کے بیٹوں کو یوں دعا دی ’’اے اللہ آل جعفر کی سرپرستی فرما ، ان کو برکت دے اور ان کے بیع و شرا کو نفع بخش بنا۔ آپؐ نے فرمایا میں دنیا و آخرت میں آلِ جعفر کا ولی ہوں۔ آنحضورؐ کی اس دعا کا اثر لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ اپنے وقت کے مالدار ترین تجار میں شامل تھے جو اپنا مال اللہ کی راہ میں بے دریغ خرچ کیا کرتے تھے۔ 

(بخاری کتاب المغازی۔ مسند احمد، حدیث 75)

حافظ محمد ادریس

Post a Comment

0 Comments