دل کی شکل میں طواف خانہ کعبہ کا روح پرور منظر

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

دل کی شکل میں طواف خانہ کعبہ کا روح پرور منظر

خانہ کعبہ کی تصاویر اہل ایمان کے لیے ہروقت اور ہرجگہ غیرمعمولی کشش اور جذبہ ایمانی کے فروغ کا ذریعہ ہیں۔ اہل ایمان طواف کعبہ کے ایمان پرور مناظر کو دیکھنا بھی کار ثواب سمجھتے ہیں۔ رواں سال کے موسم حج کے موقع پر احمد حاضر نامی ایک شہری نے خانہ کعبہ میں طواف اور دیگر مناسک کے مواقع پر کی منفرد تصاویر اپنے کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کیں۔ ان منفرد مناظر کعبہ میں ایک تصویر کی اپنی ہی انفرادیت اور خوبصورتی ہے۔ ایک تصویر میں خانہ کعبہ کے گرد حجاج کرام طواف کرتے ہوئے ایسے اکھٹے ہوگئے کہ طواف کا منظر دل کی شکل میں بدل گیا۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق احمد نے حج کے موقع پر لی گئی تصاویر فوری طور پر شائع نہیں کیں کیونکہ اس کا خیال ہے جب حجاج کرام فریضہ حج کی ادائی کے بعد اپنے وطن اور گھروں کو لوٹ جائیں گے، اس کے بعد وہ منفرد تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کریں گے۔

دل کی شکل میں طواف کعبہ کی تصویر محض اتفاق ہے مگر اس نے خانہ کعبہ سے وابستگی رکھنے والے مسلمانوں کو اپنی طرف کھینچ لیا۔ سوشل میڈیا پر اس تصویرکو جو غیرمعومولی پذایرائی مل رہی ہے وہ شاید ہی کسی دوسری تصویر کے مقدر میں آئے۔ احمد نے سات ذی الحج سے سعودی فضائیہ کی ٹیم کے ہمراہ حرم مکی کے فضائی مناظر کا جائزہ لیتے ہوئے ایسی کئی تصاویر اتاریں۔ اب انہیں ایک ایک کرکے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا جا رہا ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ نے حرم مکی کے فوٹوگرافر سے تصاویر شائع نہ کرنے کی بابت پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ چاہتے تو اپنے انسٹا گرام پر خانہ کعبہ کی دوران حج کی تصاویر پوسٹ کرسکتے تھے.

مگر وہ لوگوں کی زیادہ توجہ چاہنے کے ساتھ تجسس پیدا کرنا چاہتے تھے تا کہ حجاج بیت اللہ اپنے گھروں کو لوٹنے کے بعد ان تصاویر کو دیکھیں اور اپنا ایمان تازہ کرنے کے ساتھ ساتھ حج کی یادیں بھی تازہ کرسکیں۔  احمد کا کہنا ہے کہ وہ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر حرم مکی میں طواف کی تصاویر اتارنے میں بہت جلدی سے کام لیتے تھے کیونکہ جاری طواف کے باعث مناظر سکینڈز میں تبدیل ہو رہے تھے۔ اس دوران ایک موقع ایسا آیا جب کہ حجاج کرام خانہ کعبہ کے گرد دل کی شکل کے دائرے میں آ گئے۔ یہ منفرد منظر بدلنے سے قبل ہی ان کے کیمرے میں محفوظ ہو گیا تھا اور اب اسے سوشل میڈیا پر لاکھوں مسلمان دیکھ رہے ہیں۔

ریاض ۔ عبدالمحسن الشعوان

Post a Comment

0 Comments