دنیا میں بھی سزا اور جزا ملتی ہے

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

دنیا میں بھی سزا اور جزا ملتی ہے

بلاشبہ یہ دنیا اندھیر نگری نہیں ہے۔ یہاں بھی محدود پیمانے پر جزا اور سزا کا عمل جاری ہے ۔ ڈاکٹر عبدالغنی فاروق کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ جنہوں نے دنیا بھر کے اُن پڑھے لکھے اور معروف افراد کی دستانیں قلمبند کی ہیں جو غیر مسلم تھے مگر کائنات کی سب سے سچّی کتاب تک ان کی رسائی ہوئی اور ان کے دل و دماغ قرآن کے نور سے منوّر ہوگئے۔

“مکافاتِ عمل” کے نام سے ڈاکٹر صاحب کی ایک اور شاندار کتاب سامنے ہے جسکے ٹائٹل پرلکھّا ہے اور بجا لکھّاہے کہ “یہ دنیا اندھیر نگری نہیں ہے یہاں بھی محدود پیمانے پر جزاء اور سزا کا عمل جاری ہے”۔ بلاشبہ خالق کائنات اپنی مخلوق کے دُکھ درد باٹنے والوں کو دُنیا میں بھی صلّہ دیتا ہے اور کمزور انسانوں پر ظلم کرنے والوں کو دُنیا میں بھی سزا ملتی ہے۔

ڈاکٹر فاروق صاحب کی تحریر دلگداز بھی ہے اور سبق آموز بھی۔ کتاب میں درجنوں واقعات اور کہانیاں درج ہیں جن سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے، اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اپنے گناہوں کی معافی مانگ کر آئیندہ کے لیے توبہ کرنی چاہیے اور زندگی کے اصل مقصد کو پیشِ نظررکھتے ہوئے اپنا طرزِ عمل تبدیل کرناچاہیے۔

کائناتوں اور انسانوں کے خالق کا فرمان ہے” اے انسان تجھے جو بھلائی حاصل ہوتی ہے اﷲ کی عنایت سے ہوتی ہے اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بدولت ہے”۔
اﷲکے سچّے نبیﷺ نے فرمایا کہ” جو کسی قسم کی نیکی کریگا اس کی جزا آخرت میں ہے اور جو کسی قسم کی برائی کریگا وہ اسی دنیا میں اس کی سزا مصائب اور امراض کی صورت میں بھگت لے گا”۔ قرآن انسانوں کو ماضی کے واقعات سے سبق حاصل کرنے کا درس دیتا ہے ۔ قرآن ہی کے الفاظ ہیں “پس بیان کرو واقعات تاکہ لوگ غور و فکر کریں” امریکی نو مسلم اسکالر شیخ حمزہ یوسف لکھتے ہیں “ہمیں کہانیوں کی اسی طرح ضرورت ہے جسطرح انسانی جسم کو پانی کی “کتاب کا ہر واقعہ ایک مکمّل کتاب ہے چند واقعات قارئین سے شیئر کررہا ہوں۔
تقسیم سے پہلے کی بات ہے ، چوہدری اکرام اﷲ صاحب ہندوستان کے ضلع حصار کی تحصیل فتح آباد میں نائب تحصیل دار تھے۔ ایک مرتبہ وہاں شدید ترین ژالہ باری ہوئی  اور علاقے کی ساری فصلیں تباہ و برباد ہوگئیں ۔ چوھدری صاحب محکمہ مال کے ایک افسر کی حیثیّت سے “خرابہ” لکھنے کے لیے اپنے عملے کے ساتھ وہاں دورے پر تشریف لے گئے ۔

انھوں نے دیکھا کہ ژالہ باری سے واقعی پورا علاقہ برباد ہوگیا۔  لیکن حیرت انگیز طور پر عین اس آفت زدہ علاقے کے اندر کچھ کھیت بالکل سلامت ہیں اور انھیں معمولی سا بھی گزند نہیں پہنچا ہے۔ ظاہر ہے یہ منظر بڑا ہی پر اسرار اور حیران کن تھا۔ پتہ چلا کہ یہ کھیت ایک مسلمان زمیندار کے ہیں۔

دورے سے فارغ ہوکر چوہدری صاحب خود اس زمیندار کے پاس تشریف لے گئے اور معلوم کیا کہ اس کا کیا خاص ’’عمل‘‘ ہے کہ مکمل تباہ شدہ علاقے کے اندر اس کے کھیتوں کو معمولی سا نقصان نہیں پہنچا ۔ نیک سیرت زمیندار نے بتایا کہ جب میری کوئی بھی فصل تیار ہوتی ہے، تو میں اپنے گاؤں کے غرباو مساکین کو بلا لیتا ہوں اور باقاعدہ وزن کرکے اناج اور بھوسے کا دسواں حصہ ان کے حوالے کردیتا ہوں اور اپنا حصہ بعد میں گھر لے جاتا ہوں۔

 لیکن میں اسی پر اکتفا نہیں کرتا۔ اس زمیندار نے بتایا یہ تو شرعی طور پر میرا فرض ہے۔ میں اس حوالے سے کسی پر احسان نہیں کرتا۔ یہ نہیں کروں گا تو گنہگار ہوں گا۔ اس کے بعد خاص عمل میں یہ کرتا ہوں کہ اپنے ذرایع سے جائز ہ لیتا رہتا ہوں کہ گاؤں میں کسی غریب کے گھر سے یا کسی بیوہ عورت کے گھر سے گندم یا غلہ ختم تو نہیں ہوگیا۔ وہ ضرورت مند تو نہیں ہے اور جس کے بارے میں مجھے ایسی خبر مل جائے، میں بغیر اس کے طلب کیے، از خود اس کے گھر میں غلہ پہنچا دیتا ہوں۔ یہ ہے میرا خاص “عمل” جس کی وجہ سے میرے کھیت اﷲ کی ناراضی سے مکمل طور پر محفوظ رہے ہیں۔”

“وزیرآباد کے قریبی قصبے سوہدرہ میں ایک مرتبہ کیڑے نے چاول کی ساری فصل تباہ کردی تھی، مگر میاں عبدالخالق کے پچاس ایکڑ پر مشتمل سارے کھیت مکمل محفوظ رہے تھے اور انھیں معمولی سا نقصا ن نہیں پہنچا تھا اور اس کا سبب معلوم کیا تو پتہ چلاکہ میاں صاحب خدا ترس انسان تھے۔ غربا ومساکین کا خاص خیال رکھتے اور انھیں بھوکا ننگا نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ان کی ہر طرح سے کفالت کرتے تھے”۔

“چوہدری غلام قادر گوجر محکمہ زراعت میں افسر تھے ۔ ان کا آبائی تعلق قصبہ مینگڑی تحصیل شکرگڑہ (ضلع نارروال) سے تھا۔ ان کے والد صاحب زمیندار تھے اور بہت ہی نیک اور خدا ترس انسان تھے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے۔ زکوٰۃ اور عشر کا اہتمام کرتے تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بہت غریب پرور تھے۔
انھوں نے اپنے قصبے کی بیواؤں اور یتیم بچوں کے وظائف مقرر کررکھے تھے۔ 

یتیم لڑکیوں کی شادیوں میں خرچ کرتے اور غریب طالب علموں کی دل کھول کر امداد کرتے تھے۔ غلام قادر گوجر نے بتایا کہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ چاول کی فصل بالکل تیار ہوچکی تھی کہ چوہوں نے یلغار کر دی اور پورا علاقہ کاٹ کر رکھ دیالیکن ہمارے کھیتوں میں پُر اسرار طور پر دو بڑے بڑے بلّے آکر بیٹھ گئے اور انھوں نے کسی چو ہے کو کھیتوں میں نہیں گھسنے دیا اور ہماری فصل بالکل محفوظ رہی، اسے معمولی سا بھی نقصان نہ پہنچا۔ والد صاحب یتیموں اور غریبوں کی امداد کرتے تھے اس کے صلے میں اﷲتعالیٰ خود ہماری فصل کی حفاظت کا انتظام کردیا”۔

“قبولہ کے قریب ’لاہوریوں کا چک‘ کے نام سے ایک گاؤں ہے۔ وہاں ایک زمیندار نے 25ایکڑ خربوزے کاشت کررکھے تھے۔ خربوزے پکنے شروع ہوئے تو گاؤں کا ایک یتیم لڑکا جس کی عمر دس بارہ سال تھی، خربوزوں کے کھیت میں چلا گیا اور اُس نے ایک خربوزہ توڑ لیا۔ زمیندارنے لڑکے کی یہ حرکت دیکھ کرملازم کو دوڑایا کہ لڑکے کو پکڑ کر لاؤ اور پھر لڑکے کی خوب پٹائی کی۔ لیکن اُس کا غصّہ ٹھنڈا نہ ہوا اور اُس نے نوکروں کو حُکم دیا کہ لڑکے کو درخت کے ساتھ باندھ دو۔

اُس نے اعلان کیا کہ یہ لڑکا کل بارہ بجے تک درخت کے ساتھ اسی طرح بندھا رہے گا۔ میں اس کو پورے علاقے کے لیے عبرت بنادیناچاہتا ہوں تاکہ آئیندہ کوئی میری زمینوںمیں داخل نہ ہو۔ عام لوگوں نے بھی زمیندار کو سمجھایا کہ غریب بچّہ ہے معاف کردو، مگر اُس نے کسی کی نہ سُنی۔ لڑکے کی بیوہ ماں آئی، اس نے زمیندار کی منّتیں کیں، ہاتھ جوڑے، اپنا دوپٹہ اُتار کر اُس کے پاؤں پر رکھا، ہر طرح کا جرمانہ ادا کرنے کی پیش کش کی، مگر اُس ظالم کا دل نہ پسیجا، اُس نے سختی کے ساتھ ہر التجا رَد کردی اور نہایت تکّبر کے ساتھ اعلان کردیا کہ لڑکے کو معاف کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، میں اس کو ہرگز نہیں چھوڑوںگا اور یہ لازماً کل بارہ بجے تک درخت سے اسی طرح بندھا رہے گا۔ بے چاری بیوہ عورت زارزارروتی ہوئی چلی گئی۔

عینی شاہد بتاتے ہیںکہ تقریباً ایک ڈیڑھ بجے کا وقت تھا۔ شدید گرمی پڑرہی تھی اور آسمان بالکل صاف تھا۔ بادلوں کا دور دور تک نشان نہ تھا کہ اچانک سیاہ رنگ کی ایک بدلی فضا میں نمودار ہوئی اور اس مربّعے پر چھاگئی اور پھر اس میں سے موٹے موٹے اولے برسنے شروع ہوگئے ۔ اولوں کا وزن معمول سے اتنا زیادہ تھا اور اُن کی شدت کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے خربوزوں والے رقبے کومکمّل طور پر بربادکرکے رکھ دیا۔ خالق نے اپنی کمزور مخلوق پر ظلم کرنے والے ظالم کو فوراً سزا دے دی”۔

پنجاب کے ایک ظالم جاگیردار کا سچّا اورعبرت ناک واقعہ سن لیں: ایک روز دوپہر کو وہ ڈیرے پر گیا۔ سارے نوکراورمزارع خدمت میں حاضر ہوگئے، نہ جانے کس بات پر اُسے ایک مزارع پر غصّہ آگیا۔ اُس نے ڈنڈا پکڑا اور اُس کی پٹائی شروع کردی۔ اُس بے چارے نے جان بچانے کی خاطر بھاگ کر ایک جھونپڑے میں پناہ لے لی اور اندر سے کنڈی لگالی۔جاگیردار نے باہر سے کنڈی لگائی اور جھونپڑے کو آگ لگادی۔

جھونپڑا لکڑیوں اور گھاس پھوس سے ہی تو بنا ہوا تھا، فوراً ہی آگ بھڑک اُٹھی اور سارا جھونپڑا الاؤ کی صورت اختیار کرگیا۔کسی مائی کے لال میں جرأت نہیں تھی کہ آگے بڑھ کر مد اخلت کرتا، چنانچہ وہ غریب جھونپڑے کے اندر جل کر بھسم ہوگیا۔کس کی مجال تھی کہ وہ اس ظالم کے خلاف کہیں فریاد کرتا یا قانون کا دروازہ کھٹکھٹاتا۔ کچھ دن اس واقعے کا قرب و جوار میں سرگوشیوں کے انداز میں چرچا ہوا اور پھر گہری خاموشی چھاگئی۔

کرنا خدا کا یہ ہوا کہ چند ہی ہفتوں کے بعد متذکرہ جاگیردار کے گھٹنوں میںتکلیف شروع ہوگئی۔ پہلے سوجن اور درد اور پھر فالج۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس شخص کے لیے ایک انچ بھی حرکت کرنا ممکن نہ رہا۔ ملازم ہی اسے اٹھا کر بستر پر لٹاتے اور ملازم ہی ٹائیلٹ میں لے جاتے شب وروز اسی طرح گزرتے رہے۔ زندگی اس کے لیے وبال بن گئی۔

مئی کامہینہ تھا۔ گندم پک گئی تھی اور زمینوں پر تھریشر لگے ہوئے تھے۔ اُس نے گھر میں اس خواہش کا اظہار کیا کہ بہت دن سے میں باہر نہیں گیا۔ تھریشر بھی کام کررہے ہیں کیا ہی اچھا ہوکہ مجھے باہر لے جایا جائے، ہوا خوری بھی ہوجائے گی، گندم نکلتے ہوئے بھی دیکھ لوں گا اور طبیعت بھی بہل جائے گی۔ڈرائیور نے جاگیردار کو بتایا کہ حضور!تھریشر کماد کی دوسری جانب کام کررہے ہیں اور اـدھر گاڑی لے جانے کی کوئی صورت نہیں ہے۔

جاگیردار نے کہا: کوئی بات نہیں، تم گاڑی کو یہیں چھوڑو، اے سی چل رہا ہے، مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا، تم جاؤ اور جاکر دیکھ آؤ۔ چنانچہ ڈرائیور چلا گیا ۔ اب قرائن یہ ہیں کہ جاگیردار نے ماچس جلا کر سگریٹ سلگایا اور جلتی ماچس باہر پھینک دی۔ مئی کا مہینہ تھا ، غضب کی دھوپ تھی، گاڑی کے نیچے اور چاروں جانب “چھوئی” بکھری ہوئی تھی اور یہ چھوئی تو آگ پکڑنے کا بہانہ مانگتی ہے، چنانچہ فوراً ہی “چھوئی”نے آگ کا پرجوش استقبال کیا، گاڑی کے چاروں طرف الاؤ بھڑک اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ جاگیردار اپنی قیمتی مرسیڈیز کار سمیت جل کر کوئلہ ہوگیا اور کوئی بھی اُسے اﷲجباروقہار کے غضب سے نہ بچا سکا۔

یہ ہمارے ارد گرد کی سو فیصد سچّی کہانیاں ہیں جو پکا ر پکار کر ہمیں سبق اور عبرت حاصل کرنے کا پیغام دے رہی ہیںفاعتبرو یا اولی الابصار۔

ذوالفقار احمد چیمہ

Post a Comment

0 Comments