المسجد الأقصى : منفی 60 درجہ حرارت

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

المسجد الأقصى : منفی 60 درجہ حرارت

جی ہاں یہ اسلامی دنیا سے سب سے دور "المسجد الاقصیٰ " ہے (عربی زبان
میں" اقصیٰ " کا معنی دورترین ہے)۔ یہ مسجد مقبوضہ بیت المقدس میں نہیں بلکہ برفانی سرزمین کے شمال میں واقع ایک ٹاؤن میں ہے جہاں اسکیمو یا "Inuit" کے نام سے پہچانی جانے والی قوم رہتی ہے۔ کینیڈا کے انتہائی شمالی علاقے نناوت کے صدر مقام اس ٹاؤن کا نام Iqaluit ہے۔

 نناوت کا 20 لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ کا رقبہ تقریبا مملکت سعودی عرب کے برابر ہے جب کہ اس کی مجموعی آبادی 31 ہزار نفوس کے قریب ہے۔ سال کے زیادہ تر حصے میں یہاں سورج کا پردہ رہتا ہے جس کی وجہ سے بعض مرتبہ درجہ حرارت منفی 60 ڈگری تک گرجاتا ہے۔ مبصرین کے مطابق جمعہ کے روز اس کے صدر مقام میں مسجد کا افتتاح چھوٹے سے "اکالوئٹ" میں یقینی گرم جوشی پیدا کردے گا، یہاں کی آبادی 7 ہزار ہے 

تندوتیز آب وہوا رکھنے والا "اکالوئٹ" ایک جزیرے پر واقع ہے۔ یہاں مکمل ہونے والی دو منزلہ مسجد پر جس کی تعمیر گزشتہ مئی میں شروع کی گئی تھی 7.5 لاکھ ڈالر سے زیادہ لاگت آئی ہے۔ یہ رقم ان عطیات سے حاصل ہوئی جن کو 2012 سے نناوت کے مسلمانوں کے ذریعے جمع کیا جارہا تھا۔ اس رقم سے ایک سال قبل زمین خریدی گئی اور بقیہ رقم کو مسجد کی تعمیر میں استعمال کیا گیا۔
اس کی پہلی (زمینی) منزل ایک ہال اور لائبریری کے لیے مخصوص ہے جب کہ دوسری منزل پر نماز کی جگہ ہے، جہاں خواتین کے حصے میں 40 اور مردوں کے حصے میں 77 نمازیوں کی گنجائش ہے۔ اس مسجد کو فلسطینی انجینئر فتح اللہ فرجات نے اپنے ایک دوسرے ساتھی احمد ربایعہ کے تعاون سے ڈیزائن کیا ہے جن کو "العربيہ ڈاٹ نیٹ" کی وڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے۔ فلسطینی انجینئر احمد ربایعہ 5 برسوں سے "اکالوئٹ" میں مقیم ہیں۔
اسلامی سوسائٹی کی جانب سے 3 مساجد کی تعمیر
 احمد ربایعہ نے بتایا کہ مسجد کی تعمیر میں موسم کی دشواریاں سب سے بڑا چیلنج تھیں جس کی وجہ سے آدھے سے زیادہ تعمیراتی سامان کینیڈا کے دارالحکومت سے کشتیوں کے ذریعے بھیجا گیا۔ مسجد کا ڈیزائن انجینئر فرجات نے تیار کیا جو اس سے قبل 2010 میں رضاکارانہ طور پر "مسجد القطب" کی تعمیر میں بھی پیش پیش رہے۔ اس مسجد کے جو "دنیا کے اختتام پر واقع مسجد" کے نام سے بھی مشہور ہے، افتتاح کے موقع پر "العربیہ ڈاٹ نیٹ" نے وسیع تحقیقی معلومات پیش کی تھیں۔ "انوئک" ٹاؤن کی یہ مسجد قطب شمالی کے سب سے زیادہ نزدیک شمار کی جانے والی مسجد ہے۔

"انوئک" میں تعمیر کی جانے والی یہ مسجد "زبيدة تلاب چیریٹی سوسائٹی" کی جانب سے بنائی جانے والی دوسری مسجد تھی۔ اس سوسائٹی کے نگراں سعودی طبیب اور صحافی ڈاکٹر حسين سعود قستي ہیں۔ 48 سالہ حسین کی پیدائش مکہ مکرمہ کے میں ہوئی تھی۔ اس سوسائٹی کی جانب سے سب سے پہلی مسجد کینیڈا کے شمالی صوبے "مینی ٹوبا" کے شہر "تھامپسن" میں بنائی گئی۔
ڈاکٹر قستی اپنی سعودی اہلیہ ڈاکٹر سوزان غزالی اور دو بیٹوں کے ساتھ مینی ٹوبا کے دارالحکومت "ونی پیگ" میں مقیم ہیں۔

ڈاکٹر اور صحافی حسین قستی اب تک کینیڈا کے سخت موسم والے علاقوں میں تین مساجد قائم کرچکے ہیں۔
"العربيہ ڈاٹ نیٹ" نے ڈاکٹر قستی سے "اكالوئٹ" کی مسجد اور وہاں کے مسلمانوں کے بارے میں ٹیلیفونک گفتگو کی۔ یہ مسلمان وہ تھوڑے سے اسیکمو لوگ ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا۔ بعد ازاں ان سب نے مسلمان خواتین سے شادی کی سوائے ایک فائر مین کے جس کا نام جیری ہے اور وہ مردوں میں واحد غیر شادی شدہ شخص ہے۔ "اكالوئٹ" کی مسجد ڈاکٹر قستی کی جانب سے قائم کی گئی سوسائٹی کی تعمیر کردہ تیسری مسجد ہے۔ قستی نے اس سوسائٹی کے لیے جو سلوگن تیار کیا وہ مسلمانوں کو بہت راحت پہنچانے والا ہے۔ اس کا سلوگن ہے "سنت، صحابہ، اور سلف صالحین" جو کہ اس سوسائٹی کی ویب سائٹ zubaidah tallab foundation پر بھی واضح طور پر چسپاں ہے۔ یہ ویب سائٹ صرف انگریزی زبان میں ہے۔

ڈاکٹر قستی کے مطابق "اکالوئٹ" کی مسجد کا 65 فی صد تعمیراتی سامان 
2012 کے موسم گرما میں کشتیوں کے ذریعے لایا گیا تاکہ دنیا کے شمال میں دور ترین ترین گنجان علاقے کے طور پر معروف "نناوت" میں پہلی مسجد کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکے۔ یہاں 6 "اسكيمو" خواتین ہیں جنہوں نے وہاں مقیم مسلمانوں سے شادیاں کیں، جو زیادہ تر عرب ہیں۔

"نناوت" کے علاقے میں سب سے پہلا مسلمان صدقات علی تھا، جو 1990 میں 
کینیڈا کے سرکاری ملازم کے طور پر یہاں پہنچا تو اس کی عمر 36 برس تھی۔ بعد ازاں وہ کاروباری شخصیت بن گیا اور اس نے 20 گھر بھی تعمیر کیے ۔ جہاں تک پہلے عرب باشندے کی بات ہے تو وہ عمر نامی ایک فلسطینی تھا۔ عمر نے ایک اسکیمو خاتون سے شادی کی جس نے اس کے ساتھ جرمنی ہجرت کرلی۔ اس کے بعد الجزائر کا باشندہ یوسف بوشا آیا اور اس کے بعد تقریبا 7 سال قبل مونٹریال شہر سے سوڈانی باشندہ سید زین یہاں پہنچا۔ اس کے بعد دیگر لوگوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہا اور اب یہاں سوڈان، لیبیا، اردن اور صومالیہ سے تعلق رکھنے والے عربوں کی تعداد 30 ہوگئی ہے۔ یہ تمام تر تفصیلات ڈاکٹر قستی کی جانب سے بتائی گئیں۔

   

Post a Comment

0 Comments