اعتکاف کی فضیلت.......

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

اعتکاف کی فضیلت.......


اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ٹھہر جانے اور خود کو روک لینے کے ہیں۔اعتکاف کے معنی ہیں ’’جھک کر یک سوئی سے بیٹھ رہنا‘‘ اس عبادت میں انسان صحیح معنوں میں سب سے کٹ کر اللہ تعالیٰ کے گھر میں یکسو ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ اس کی ساری توجہ اس امر پر مرکوز رہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جائے۔ چنانچہ وہ اس گوشہٴ خلوت میں بیٹھ کر توبہ و استغفار کرتا ہے۔ نوافل پڑھتا ہے، ذکر و تلاوت کرتا ہے۔ دعا و التجا کرتا ہے اور یہ سارے ہی کام عبادات ہیں۔ اس اعتبار سے اعتکاف گویا مجموعہ عبادات ہےشریعت اسلامی کی اصطلاح میں اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں عبادت کی غرض سے مسجد میں ٹھہرے رہنے کو کہتے ہیں۔

یعنی معتکف گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اُسے عملاً نیک اعمال کرنیوالے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔‘‘قرآن سے استدلال : وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ (سورہ بقرہ: 187) ترجمہ : جب تم مسجدوں میں اعتکاف سے ہو احادیث کی روشنی میں اعتکاف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کا بھی خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ رمضان کے آخری دس دن، رات دن مسجد کے ایک گوشے میں گزارتے اور دنیوی معمولات اور تعلقات ختم فرما دیتے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی پابندی سے اعتکاف فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ آپ اعتکاف نہ بیٹھ سکے تو آپ نے شوال کے آخری دس دن اعتکاف فرمایا۔ (صحیح بخاری، الاعتکاف، باب الاعتکاف فی شوال، حدیث : ۲۰۴۱)اور جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال آپ نے رمضان میں دس دن کی بجائے ۲۰ دن اعتکاف فرمایا۔ (صحیح بخاری، الاعتکاف، حدیث: ۲۰۴۴)سيدنا ابى بن كعب رضى الله عنه نے بیان کیا کہ رسول الله صلی الله عليه وسلم رمضان کا آخری عشرہ اعتکاف فرمایا کرتے تھے. ایک سال آپ صلی الله عليه وسلم (سفر کی وجہ سے) اعتکاف نہ بیٹھ سکے تو اگلے سال آپ صلی الله عليه وسلم نے بیس رات تک اعتکاف فرمایا.

 سنن ابو داؤد 2463 سيدنا ابو هريره رضى الله نے بیان کیا کہ رسول الله صلی الله عليه وسلم ہر سال رمضان میں دس دن اعتکاف کیا کرتے تھے. لیکن جس سال آپ صلی الله عليه وسلم كا انتقال هوا اس سال آپ صلى الله عليه وسلم نے بیس دن کا اعتکاف کیا تھا. صحیح بخاری 2044 سیدہ عائشہ رضی الله عنها نے بیان کیا کہ رسول الله صلی الله عليه وسلم اپنی وفات تک برابر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے. اور آپ صلی الله عليه وسلم كے بعد ازواج مطہرات رضی الله عنهما اعتکاف کرتی رہیں. صحیح بخاری 2026رسول الله صلی الله عليه وسلم جتنی عبادت میں محنت رمضان کے آخری عشرہ میں کرتے اتنی اور دنوں میں نا کرتے تھے. صحیح مسلم 2788اعتکاف کے ضروری مسائلاس موقع پر اعتکاف کے ضروری مسائل بھی سمجھ لینے مناسب ہیںاس کا آغاز ۲۰ رمضان المبارک کی شام سے ہوتا ہے۔ مُعْتکِف مغرب سے پہلے مسجد میں آجائے اور نماز پڑھ کر مُعْتکِف(جائے اعتکاف ) میں داخل ہو۔اس میں بلا ضروری مسجد سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔بیمار کی مزاج پرسی ، جنازے میں شرکت اور اس قسم کے دیگر رفاہی اور معاشرتی امور میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔البتہ بیوی آکر مل سکتی ہے، خاوند کے بالوں میں کنگھی وغیرہ کر سکتی ہے۔ خاوند بھی اسے چھوڑنے کے لیے گھر تک جا سکتا ہے، اسی طرح اگر کوئی انتظام نہ ہو اور گھر بھی قریب ہو تو اپنی ضروریات زندگی لینے کے لیے گھر جا سکتا ہے۔

غسل کرنے اور چارپائی استعمال کرنے کی بھی اجازت ہے۔اعتکاف جامع مسجد میں کیا جائے، یعنی جہاں جمعہ کی نماز ہوتی ہو۔عورتیں بھی اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں، لیکن ان کے لیے اعتکاف بیٹھنے کی جگہ مساجد ہی ہیں نہ کہ گھر، جیسا کہ بعض مذہبی حلقوں میں گھروں میں اعتکاف بیٹھنے کا سلسلہ ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی اعتکاف بیٹھتی رہی ہیں اور ان کے خیمے مسجد نبوی میں ہی لگتے تھے، جیسا کہ صحیح بخاری میں وضاحت موجود ہے اور قرآن کریم کی آیت ﴿ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ ۙ فِي الْمَسٰجِدِ ﴾ (البقرة: ۱۸۷) سے بھی واضح ہے۔اس لیے عورتوں کا گھروں میں اعتکاف بیٹھنے کا رواج بے اصل اور قرآن و حدیث کی تصریحات کے خلاف ہے۔ تاہم چونکہ یہ نفلی عبادت ہے، بنابریں جب تک کسی مسجد میں عورتوں کے لیے الگ مستقل جگہ نہ ہو، جہاں مردوں کی آمد و رفت کا سلسلہ بالکل نہ ہو، اس وقت تک عورتوں کو مسجدوں میں اعتکاف نہیں بیٹھنا چاہیے۔ایک فقہی اصول ہے (ردء ۔۔۔۔ المصالح) ’’یعنی خرابیوں سے بچنا اور ان کے امکانات کو ٹالنا بہ نسبت مصالح حاصل کرنے کے، زیادہ ضروری ہے۔‘‘ اس لیے جب تک کسی مسجد میں عورت کی عزت و آبرو محفوظ نہ ہو، وہاں اس کے لیے اعتکاف بیٹھنا مناسب نہیں اس لئے علما نے عورتوں کا گھر پر نفلی اعتکاف جائز قرار دیا ہےالله پاک ہمیں عمل کی توفیق دے اور ہماری عبادات کو قبول فرماے

Post a Comment

0 Comments