بــے صــبری

Islam

6/recent/ticker-posts

Header Ads Widget

بــے صــبری







صبر، ضبط نفس کو کہتےہیں یعنی نفس کو فضول خواہشات، فضول شہوات، غلط غصے، حرص, بزدلی، گناہوں اور مصیبت کے وقت بےہمتی اور جزع فزع سے روکنا صبر کہلاتا ہے,
گویا کہ ایمان کے تقاضوں پر ڈٹے رہنے اور نیک اعمال پر جمے رہنے کا نام صبر ہے,
پس جس خوش قسمت انسان کو اس بات کی قوت اور طاقت نصیب ہوجاۓ کہ وه نیکیوں پر ڈٹا رہے گناہوں سے بچتا رہے اور مصیبت کے وقت بهی اللہ تعالی سے جڑا رہے، وہی شخص صابر ہے اور ایسا شخص اللہ تعالی کا محبوب ہے, اور اس کے بےشمار فضائل ہیں, اسی وجہ سے صبر کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے کیونکہ صبر ہی کی بدولت انسان کو ایمان پر استقامت اور ایمان کے تقاضوں پر عمل کرنے میں پختگی نصیب ہوتی ہے, وه شخص جو مصیبت کے وقت اللہ تعالی سے بدگمان ہوجاتا ہو اور زبان الٹی سیدهی باتیں کرتا ہو، صبر سے محروم ہے, ایسے شخص کو مصیبت کی تکالیف بهی اٹهانا پڑےگی اور وه بے صبری کی وجہ سے گناہگار بهی ہوگا اور اسے مصیبت زیاده ستاۓ گی کیونکہ مصیبت کے وقت صبر نہ کرنا، مصیبت سے بدتر مصیبت ہے,
اسی طرح وه شخص جو نیکیوں پر اور طاعات پر ثابت قدم نہیں رہتا, وه بهی صبر سے محروم ہے, ایسے شخص کو کبهی بهی استقامت جو سب سے بڑی کرامت ہے، نصیب نہیں ہوتی, اسی طرح وه شخص جو گناہوں کے مواقع دیکھ کر بے قابو ہوجاتا ہے اور ان گناہوں میں جاگرتا ہے , وه بهی صبر سے محروم ہے، ایسے شخص کا ایمان ہمیشہ خطرات میں رہتا ہے, اسی طرح جو شخص دنیا کی چمک دمک کے پیچهے آنکهیں بند کرکے دوڑتا ہے اور مزید سے مزید کی خواہش میں مبتلا رہتا ہے، وه بهی صبر سے محروم ہے، ایسا شخص دنیا کے ادنی مفاد کی خاطر آخرت کی پائدار زندگی کو خطرے میں ڈالتا ہے, خلاصہ یہ ہوا کہ انسان صبر کا محتاج ہے اور صبر ہی انسان کی وه طاقت ہے جس کے ذریعے وه ایمان کے تقاضوں کو نباه سکتا ہے اور شہوت(خواہشات) اور غضب (غصے) کے شر سے محفوظ ره سکتا ہے اور حب دنیا کے خوفناک وبائی مرض پر قابو پاکستا ہے, اس لۓ ہر انسان پر لازم ہے کہ وه اپنے اندر اس ضروری اور عمده خصلت و طاقت کو پیدا کرے، اگر چہ اس میں ظاہری طور پر کچھ وقتی تکلیف ہی کیوں نہ برداشت کرنی پڑے,
 
  
 

Enhanced by Zemanta

Post a Comment

0 Comments